تحریر۔ فرزانہ افضل
مشہور رومانوی کہانی ہیر رانجھا کے مرکزی کردار “ہیر” کو شاعرانہ انداز میں بہت سے شعراء نے بیان کیا ہے مگر اس کہانی کی مقبول ترین شاعرانہ تخلیق اٹھارویں صدی کے معروف صوفی شاعر سید وارث شاہ نے کی۔ ان کی لکھی ہوئی “ہیر” نے عالمی شہرت پائی اور ہیر زبان زد عام ہوئی۔ بہت سے نامور گلوکاروں نے وارث شاہ کی ہیر کو موسیقی کے سروں میں پرویا۔ ہیر رانجھا پر ناول لکھے گۓ ، متعدد فلمیں بنیں ۔ 2016 میں وارث شاہ کی ہیر کے دو سو پچاس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ برطانیہ کی سما آرٹس کونسل مبارکباد کی مستحق ہے جس کے ممبر سیف الرحمن نے ہیر کو تھیٹر انداز میں لکھا اور پیش کیا۔ پروڈکشن ٹیم اور فنکاروں نے چھ ماہ کی مسلسل محنت اور ریہرسل کے بعد ڈرامے کو مقامی کمیونٹی کے لیے پیش کیا ۔ تمام فنکار یکساں تعریف کے مستحق ہیں۔ ہر ایک نے ڈائیلاگ کی ادائیگی ، تلفظ ، تاثرات اور اداکاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پوری ڈرامہ کاسٹ ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہوئی اور ہر آرٹسٹ نے اپنے کردار سے بھرپور انصاف کیا۔ اس اسٹیج ڈرامہ کے رائٹر اور ڈائریکٹر سما کونسل کے ممبر سیف الرحمن ہیں جو خود بھی ہیر کے چچا قیدو کا کردار زبردست طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ ہیر کا مرکزی کردار زرقا احمد اور انکی والدہ کا کردار سمیرا اشرف اور والد انور شاد نبھا رہے ہیں۔ رانجھا کے کردار میں فرید بٹ نے رومانوی انداز خوب اپنایا ہے۔ ہیر کی سہیلیوں میں فرخ جبیں اور رادھی سلاوہ شامل ہیں جبکہ قیدو کے دوست کا کردار ظہیر لکھیرا نے نہایت دلچسپ انداز سے نبھایا ہے۔ صدیوں پرانی تخلیق ہیر رانجھا کی رومانوی مگر المناک انجام کی کہانی جس کا اطلاق آج کے دور پر بھی ہوتا ہے ، جبری شادیوں کے موضوع پر ہے ۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سی جگہوں پر محبت کی شادی کی خواہش پر دونوں طرف کے خاندان بند باندھ دیتے ہیں ۔ خاص طور پر اپنی بیٹیوں کی شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں جبری شادی سے انکار کی صورت میں یا محبت کی پاداش میں عزت کے نام پر قتل کر دیئے جاتے ہیں ۔ ڈرامے کے رائٹر سیف الرحمٰن نے جبری شادی کے خلاف بہت اچھے مکالمات لکھے ہیں اور کمیونٹی کو ایک صاف ستھری تفریح کے ساتھ ساتھ ایک مثبت اور تعمیری پیغام بھی دیا ہے۔ سما کونسل کی پروڈکشن ٹیم اپنی اس کاوش پر اعلٰی تحسین کی حقدار ہے