سی ایم ایم رپورٹ

اہم خبریں
  • غزہ پناہ گزین کیمپ میں گاڑی پر اسرائیلی فورسز کی بمباری، 5 صحافی شہید
  • بشارالاسد کی اہلیہ خطرناک بیماری میں مبتلا
  • موزمبیق میں پرتشدد مظاہرے، جیل توڑ کر 1500 قیدی فرار، 33 ہلاک
  • غزہ میں 24 گھنٹے میں 38 فلسطینی شہید
  • خلیج تعاون کونسل نے شام میں غیر ملکی مداخلت کو مسترد کر دیا
  • سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ 92 برس کی عمر میں چل بسے
  • جاپانی ایئر لائنز کا سائبر حملے کے بعد نظام بحال ہونے کا اعلان
  • روس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا
اہم خبریں
  • غزہ پناہ گزین کیمپ میں گاڑی پر اسرائیلی فورسز کی بمباری، 5 صحافی شہید
  • بشارالاسد کی اہلیہ خطرناک بیماری میں مبتلا
  • موزمبیق میں پرتشدد مظاہرے، جیل توڑ کر 1500 قیدی فرار، 33 ہلاک
  • غزہ میں 24 گھنٹے میں 38 فلسطینی شہید
  • خلیج تعاون کونسل نے شام میں غیر ملکی مداخلت کو مسترد کر دیا
  • سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ 92 برس کی عمر میں چل بسے
  • جاپانی ایئر لائنز کا سائبر حملے کے بعد نظام بحال ہونے کا اعلان
  • روس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا
Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

کتابوں کی دنیا

تحریر :نسیم شاہد
مشہور فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر نے کہا تھا میں اس لئے لکھتا ہوں کہ میرے عہد کی تہذیب و تاریخ محفوظ ہوتی رہے۔ جس معاشرے میں کتاب سے دوستی کو اہمیت دی جاتی ہو، وہ نہ صرف علمی حوالے سے پھلتا پھولتا ہے بلکہ اس میں تہذیب و تشخض کے نئے نئے در بھی وا ہوتے ہیں۔ مجھے جب بھی کتابیں موصول ہوتی ہیں میں نہ صرف انہیں پہلی فرصت میں پڑھتا ہوں بلکہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا اپنے کالم میں ذکر بھی کروں تاکہ ان کا تعارف قارئین تک بھی پہنچ جائے۔ آج جن تین کتابوں کا ذکر کرنا مقصود ہے ان میں سینئر شاعر علی اکبر عباس کا شعری مجموعہ ”تشنگی رہ گئی“ صائمہ شہباز کی کتاب ”اظہر سلیم مجوکہ کی انشائیہ نگاری“ اور ملتان میں مقیم شاعرہ تانیہ عابدی کا مجموعہ نظم و غزل ”سفر تنہا“ شامل ہیں۔علی اکبر عباس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اسلام آباد میں مقیم ہیں اور انہیں اعلیٰ خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز بھی مل چکا ہے۔ ان کا شمار ملک کے سینئر ترین شعراءمیں ہوتا ہے۔ ”تشنگی رہ گئی“ ان کا تازہ مجموعہ کلام ہے۔ اس شعری مجموعے میں ان کی زیادہ تر غزلیں شامل ہیں۔ تاہم نعتیں، منقبت اور سلام بھی اس خوبصورت مجموعے کی زینت ہیں۔ علی اکبر عباس کی غزل اپنے عہد کی حقیقتوں سے عبارت ہے، انہوں نے زندگی کے تمامتر امکانات کو سامنے رکھ کر اپنی غزل کے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔
بھلا دیئے گئے پامال راستوں کے نشاں
خزاں رسیدہ ہوا یاد کا چمن مرے یار
یہ میرے اپنے مجھے غیر کر کے چھوڑیں گے
بڑھائے جاتا ہوں میں پیار کی لگن میرے یار
علی اکبر عباس کی غزل میں جہاں تعزل نظر آتا ہے وہیں بے ساختگی اور سادگی بھی موجود ہے۔ تاہم معانی کے اعتبار سے ان کی غزل اپنے اندر صد ہزار انجم چھپائے ہوئے ہے۔ فی زمانہ غزل کے لئے موضوعات کی کمی نہیں کیونکہ اب یہ صنف زلف و رخسار کے ذکر سے بہت آگے چلی گئی ہے۔ تاہم غزل کے لئے موضوعات کا انتخاب کرتے ہوئے اس کے حسنِ بیان کو برقرار رکھنا ضرری ہے۔ غزل اور نظم کے شعر میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے اور اسے برقرار رکھنے سے ہی غزل کی پہچان برقرار رہتی ہے۔ علی اکبر عباس کا وصف یہ ہے کہ وہ جو بات بھی کرتے ہیں اس میں غزل کی چاشنی کو ماند نہیں پڑنے دیتے۔ پھر ان کا رواں لہجہ اور انداز ان کی غزل کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں ادریس آزاد نے لکھا ہے۔ علی اکبر عباس جو کہ اپنی عمر اور تجربے کے اعتبار سے استاد الشعرا، کے درجے پر فائز ہیں اور فی الواقعہ بڑے قد کے کہنہ مشق شاعر ہیں۔ ان کے خیال، مضامین اور اسلوب کی تازگی دیکھ ر رشک آتا ہے، یوں گویا وہ بطور شاعر ابھی بالکل جواں ہیں۔ ایک شاعر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو بوسیدہ نہیں ہونے دیتا۔ ”تشنگی رہ گئی“ کو پڑھ کر جس تنوع کا احساس ہوتا ہے، وہ اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
صائمہ شہباز کی کتاب ”اظہر سلیم مجوکہ کی انشائیہ نگاری“درحقیقت وہ مقالہ ہے جو انہوں نے گورنمنٹ گریجویٹ کالج وہاڑی کی بی ایس اردو میں تعلیم کے دوران لکھا۔ اظہر سلیم مجوکہ ایک سینئر لکھاری ہیں۔ انشائیہ نگاری اور کالم نویسی ان کے اصل میدان ہیں تاہم انشائیہ نگار کی حیثیت سے انہوں نے اپنی خاص شناخت بنائی، وہ اس زمانے میں انشائیہ نگاری شروع کر چکے تھے جب اس صنف کو متنازعہ صنف سمجھا جاتا تھا اور ڈاکٹر وزیر آغا اس کے سرخیل تھے۔ انشائیہ نگاری در حقیقت ایک ایسی صنف ہے جس میں مصنف نہایت ہلکے پھلکے انداز میں معاشرے میں بکھری ہوئی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے۔ انشائیے اور طنز و مزاح میں بہت باریک سا فرق ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اپنی زندگی میں اسی فرق کو واضح کرتے رہے۔ اظہر سلیم مجوکہ کی انشائیوں پر مشتمل کتاب ”شامت اعمال“ شائع ہو کر ادبی حلقوں سے داد حاصل کر چکی ہے۔ اس مقالے میں اسی کتاب کے حوالے سے تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے صائمہ شہباز نے اپنے استاد ڈاکٹر اکرم عتیق کی نگرانی میں یہ مقالہ مکمل کیا اور اس میں اظہر سلیم مجوکہ کی شخصیت و فن کے حوالے سے گراں قدر کام کیا ہے۔ اظہر سلیم مجوکہ کی تصنیف ”شامتِ اعمال“ پر جناب مشتاق احمد یوسفی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ”شامت اعمال کے چند مضامین میں نے دلچسپی سے پڑھے ہیں۔ جیسے سادہ و مخلص، شگفتہ و شائستہ اور دھیمے مزاج کے وہ خود ہیں ویسے ہی ان کے مضامین ہیں جو انہوں نے بڑی محنت اور دقتِ نظر سے لکھے ہیں۔ مختلف موضوعات پر اپنے خیالات و تاثرات کو انہوں نے دل نشیں پیرائے میں قلمبند کیا ہے جس سے ان کے مشاہدے کی گہرائی اور تنوع کا اندازہ ہوتا ہے۔“ صائمہ شہباز کی یہ کتاب انشائیے کی صنف کو سمجھنے ک ےلئے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مثلاً اس کتاب کا ایک باب تعریف انشائیہ اور مختصر تاریخ انشائیہ پر مشتمل ہے جس میں گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ صائمہ شہباز مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے تنقیدی و تحقیقی کام کو کتابی صورت میں شائع کر کے محفوظ کر دیا ہے۔
معروف شاعرہ ثانیہ عابدی ملتان میں مقیم ہیں۔ ملتان کے ادبی و سماجی حلقوں میں ان کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ”سفر تنہا“ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے۔ یہ مجموعہ نظم و غزل پر مشتمل ہے اور اس میں شعری اسلوب کی ایک نئی رمق نظر آتی ہے کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر مقبول گیلانی، ڈاکٹر شکیل پتافی، شوذب کاظمی، قمر رضا شہزاد، شاہدہ علوی اور ڈاکٹر تزئین راز زیدی شامل ہیں انہوں نے تانیہ عابدی کی شاعری کو رومانویت اور حقیقت نگاری کی عمدہ مثال قرار دیا ہے۔ تانیہ عابدی نے کتاب کے دیباچے میں اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کیا ہے یہ بھی کہا ہے کہ اس سارے سفر میں انہیں جس چیز نے سہارا دیا وہ ان کی شاعری ہے۔ کتاب کا نام ”سفر تنہا ہے“ اور تانیہ عبادی کی زندگی بھی تنہائی کے دکھ سہتے گزاری ہے، تاہم انہوں نے خود کو ٹوٹ کے بکھرنے نہیں دیا۔ ان کی شاعری میں تنہائی کا استعارہ بہت استعمال ہوا ہے۔ تاہم وہ اسی تنہائی سے اپنے لئے ڈھارس اور طاقت کا سامان کرتی ہیں۔
’پوسٹ کر کے ڈیلیٹ کرنا تھوک کر چاٹنا ہوتاہے ‘جیلوں میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم کی افواہوں پر آئی جی پنجاب خود میدان میں آ گئے
مجھے تنہا ہی رہنا ہے یہی اب فیصلہ ٹھہرا
اکیلے غم کو سہنا ہے یہی اب فیصلہ ٹھہرا
ہنسیں گے مسکرائیں گے خوشی سے ہی سہیں گے غم
تمہیں اپنانہ کہنا ہے یہی اب فیصلہ ٹھہرا
غزلوں کی طرح تانیہ عبادی کی نظموں میں بھی جینے کا عزم نظر آتا ہے۔ زندگی کے جن لمحوں میں لوگ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں تانیہ عابدین نے ان لمحوں کو اپنی ذات کی تعمیر و تشکیل کے لئے استعمال کیا ہے۔ ان کی نظموں میں لہجے کی سختی ضرور نظر آتی ہے تاہم ان کے اندر محبت کی وہ لہر رواں دواں ہے جس نے شاعرہ کو جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ ”سفرتنہا“ نسائی لہجے کی شاعری میں ایک خوبصورت اضافہ ہے اور تانیہ عابدی نے اپنے پہلے شعری مجموعے ہی سے اپنی پہچان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ کتاب الحمد پبلی کیشنز کراچی نے بڑی خوبصورتی سے شائع کی ہے۔
(بشکریہ ڈیلی پاکستان)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Array
50% LikesVS
50% Dislikes