تحریر :مختارچو ہدری
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے(ویسے یہ بھی یقین نہیں کہ ابھی ہوش سنبھالا ہے کہ نہیں) دو جملے سنتے آ رہے ہیں اور یہ جملے ریاست کے کرتا دھرتاﺅں عرف عام میں حکمرانوں کی زبان سے سنتے ہیں۔ پہلا جملہ جو زیادہ بار بولا یا لکھا گیا ہے وہ ہے کہ ”ہمارا ملک انتہائی مشکل حالات اور نازک دور سے گزر رہا ہے“یہ پہلا جملہ سن کر ہم سہم سے جاتے ہیں، مگر پھر ایک جملہ یا نعرہ مستانہ گونجتا ہے کہ ”ہم بہت جلد مشکلات پر قابو پا کر وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے“۔پچھلے 75 برس سے ان دو جملوں کا تسلسل برقرار ہے مگر ان کے متبادل دو جملے غائب ہیں، ایک یہ کہ ہمارے ملک کو اس نازک صورت حال اور مشکل حالات میں لے کر کون گیا ہے؟“9 مئی واقعات میں گرفتار خواتین کو جیل میں کیا سہولیات دی جارہی ہیں ؟ ایس ایس پی انویسٹی گیشن انوش مسعود نے بتا دیا عام فہم طور سے سوچا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی کسی پہاڑ کے نیچے آ گیا ہے تو وہ کیسے آیا ہے. اور اب اس کو اس پہاڑ کے نیچے سے نکالنا ہے تو کیسے نکالا جائے گا؟ یا یوں سمجھ لیں کہ ایک بندہ بیمار ہے اور ہر سال مزید لاغر ہوتا جا رہا ہے اور منہ سے بولتا جاتا ہے کہ میری حالت بہت ہی خراب ہے اور یہ بولنے کے بعد بغیر سانس لئے کہتا ہے کہ میں بہت جلد صحت مند ہو کر نہ صرف دوڑنے لگ جاﺅں گا بلکہ اولمپکس میں بھی حصہ لوں گا، مگر کسی کو یہ راز نہیں بتاتا کہ میں بیمار کیسے ہوا اور اتنا صحت مند ہونے کی دوا کونسی اور کس سے لوں گا؟جب کسی کو بیماری کا علم ہی نہیں تو پھر اس کا علاج کیسے ہوگا؟ویسے تو ہمارے پیارے وطن میں ان دو روایتی جملوں کے علاوہ بھی بیسیوں رٹے رٹائے جملے بولے جاتے ہیں. جیسے کہ ”ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے“ (سرکار آپ سے اجازت لینے آتا کون ہے؟) ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ” یعنی کسی دوسرے ملک جا پھینکیں گے، یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ یہ دہشت گرد بنتے کس فیکٹری کے اندر ہیں اور ہمارے خلاف کیوں ہوتے ہیں؟بہرحال میرے کالم کا موضوع پہلے دو جملے اور ان دو جملوں کے مقابل دو گمشدہ جملے ہیں اور یہ خاکسار یہی سوال موجودہ حکمرانوں سے پوچھنا چاہتا ہے کہ ”توانوں خدا دا واسطہ جے اک واری سانوں دس دیو کہ اس ملک دی اے حالت کس کیتی اے یا کس کس کیتی اے؟ دوجی گل اے دسو کہ ہون تسیں اس ملک نوں ٹھیک کیویں کرسو؟؟
( آپ کو خدا کا واسطہ کہ ایک بار ہمیں یہ بتا دو کہ اس ملک کی یہ حالت کس نے یا پھر کس کس نے کی ہے؟ دوسری بات یہ بتاو کہ آپ اس ملک کو ٹھیک کیسے کرو گے؟ جب تک یہ دو گمشدہ جملے سامنے نہیں آتے ہم آپ کی کسی بھی بات پر یقین نہیں کر سکتے ہیں، ویسے حکومتی سطح پر جوملاقاتیں ہوتی ہیں اور ان کی پریس ریلیز ہوتی ہے وہ بھی روایتی رٹے رٹائے جملے ہی ہوتے ہیں۔ ملاقات میں بیشک ایک دوسرے کو آنکھیں دکھائی جائیں پریس ریلیز میں کہا جاتا ہے کہ بہت خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی ہے اندر کچھ اور باتیں ہوتی ہیں باہر کچھ اور بتایا جاتا ہے. مجھ کم عقل کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ تین یا چار سال برسراقتدار رہنے والے 25 برس کی منصوبہ بندی کیسے کر سکتے ہیں اور وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم ملک کو درست سمت میں لے جا کر مشکلات سے نکال لیں گے؟ تین سال میں تو ایک کنال کا گھر بھی مشکل سے بنتا ہے آپ ملک بنانے کی بات کرتے ہیں؟ پھر آپ بیماری کی تشخیص کر نہیں سکتے اگر علم بھی ہو تو بتانے کی ہمت نہیں ہے تو آپ ٹھیک کیسے کریں گے؟ اگر آپ کے سر میں جونکیں ہیں جو آپ کا خون پی کر آپ کو کمزور کرتی ہیں تو پہلے یہ بتائیں تو سہی کہ ہمیں جونکیں صحت مند نہیں ہونے دے رہیں ہیں اور ہم ان جونکوں کو سر سے نکال بھی نہیں سکتے، کیونکہ وہ جونکیں بظاہر ہمارے سر کی حفاظت کی دعویدار ہیں۔ سرکار پہلے اپنی بیماری کی تشخیص کریں پھر اپنے عوامی حکیم کے سامنے بیان کریں اور اس کے بعد حکیم( عوام) سے مشورہ لیں اور حکیم(عوام) کو بیماری کے علاج کی ذمہ داری دیں اور بیماری کے علاج کے لئے جتنا وقت درکار ہے وہ بھی دیں تاکہ کوئی ایک ڈاکٹر اپنے طریقے سے علاج کرتا رہے اور آخر کار اس موذی بیماری پر قابو پا سکے، کیونکہ ہر بیماری کے علاج کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اور اینٹی جراثیم دوا کم از کم سات دن لینا پڑتی ہے۔ اگر ٹی بی ہو تو شایدچھ ماہ تک مسلسل ویکسی نیشن کروانا پڑتی ہے جب کوئی ملک بیمار ہو تو اس کے علاج کے لئے دہائیوں تک پالیسیوں کا تسلسل رکھنا پڑتا ہے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا ، ملائیشیا، برازیل اور کوریا کی مثال نہ دیکھیں ہمیں ترکیہ کی طرف دیکھنا چاہیے کیونکہ ہمارے حالات اور واقعات ترکیہ کے ساتھ زیادہ مشاہبت رکھتے ہیں یا اس طرح کہہ لیں کہ ہمیں زیادہ تر وہی مرض لاحق ہیں جو ترکیہ کو تھے ہمارا سب سے بڑا مرض ہمارے ہمسائے بھی ہیں،جو ہمیں سکھ کا سانس نہیں لینے دیتے، جبکہ ہمارے اندرونی معاملات بھی کبھی ٹھیک نہیں رہے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ قائد کے کھوٹے سکوں اور ان کے چلانے والوں سے نجات حاصل کی جائے اور نئی کرنسی ایجاد کر کے اسے نہ صرف ملک میں چلائیں، بلکہ اس کی بیرون ملک بھی کوئی وقعت بننے دیں۔’پوسٹ کر کے ڈیلیٹ کرنا تھوک کر چاٹنا ہوتاہے ‘جیلوں میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم کی افواہوں پر آئی جی پنجاب خود میدان میں آ گئے
آخری گزارش یہی ہے کہ یا تو یہ دو جملے ”پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے“ اور ہم بہت جلد ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے ”نہ بولے جائیں یا پھر ان کے مقابل دو گمشدہ جملوں“ ملک کو اِن حالات تک پہنچانے میں کس کا کتنا ہاتھ ہے اور یہ ملک ترقی کی راہ پر کیسے گامزن ہوگا؟ کو بھی ہمارے سامنے لایا جائے۔
کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا۔
(بشکریہ ڈیلی پاکستان)