برطانیہ (مانیٹرنگ ڈیسک)یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو انڈیا کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ انڈیا روس سے خام تیل لے کر اس سے بنائی گئی ریفائنڈ مصنوعات یورپی مارکیٹ میں فروخت کر رہا ہے۔ ان مصنوعات میں ڈیزل بھی شامل ہے۔انھوں نے یہ بات منگل کو فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔روس۔یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے گذشتہ ایک سال میں انڈیا نے روس سے سب سے زیادہ تیل خریدا ہے۔انڈیا میں واقع ریفائنریوں کو سستا خام تیل ملنے سے کافی فائدہ ہوا ہے اور وہ یورپ کو اس خام تیل سے حاصل ہونے والی ریفائینڈ مصنوعات بیچ کر زیادہ پیسے کما رہی ہیں۔
جوزف بوریل نے کیا کہا؟
بوریل نے کہا کہ ’انڈیا کے لیے روس سے تیل لینا معمول کی بات ہے، لیکن اگر وہ روسی تیل کو صاف کرنے کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور تیار کردہ سامان ہمیں فروخت کیا جا رہا ہے، تو ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے۔‘بوریل نے کہا کہ انھوں نے انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ بات چیت میں یوکرین پر روس کے حملے کا ذکر کیا جس میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ لیکن انھوں نے روسی تیل کا ذکر نہیں کیا۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپی کمیشن کی نائب صدر مارگریٹ ویسٹیگر نے کہا ہے کہ یورپی یونین اس بارے میں انڈیا سے بات کرے گی لیکن ’یہ ہاتھ پھیلانے جیسا ہو گا نہ کہ انگلی اٹھانے جیسا‘۔
انڈیا کتنا تیل درآمد کرتا ہے؟
پہلے انڈین ریفائنریز روس سے کم تیل لیتی تھیں کیونکہ نقل و حمل کی لاگت بہت زیادہ تھی۔ لیکن مالی سال 2022-23 میں یومیہ نو لاکھ 70 ہزار بیرل سے نو لاکھ 81 ہزار بیرل تیل درآمد کیا گیا۔ یہ ملک کی کل درآمدات کا پانچواں حصہ ہے۔روس کی سب سے بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنی روسنیفٹ اور انڈین ریفائنر انڈین آئل کارپوریشن (IOC.NS) نے بھی انڈیا کو فراہم کیے جانے والے تیل کے درجات کو نمایاں طور پر بڑھانے اور متنوع بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔کیپلر کے جہاز سے باخبر رہنے کے اعداد و شمار کے مطابق، ریلائنس انڈسٹریز اور نیارا انرجی ریفائنڈ ایندھن کے بڑے برآمد کنندگان اور روسی تیل کے خریدار تھے۔ روئٹرز کے مطابق، کمپنیوں کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔کیپلر کے مطابق ، یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے، انڈیا عام طور پر یومیہ اوسطاً ایک لاکھ 54 ہزار بیرل ڈیزل اور جیٹ ایندھن یورپ کو برآمد کرتا تھا۔اس سال پانچ فروری سے یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل کی مصنوعات کی درآمد پر پابندی کے بعد یہ بڑھ کر دو لاکھ بیرل ہو گئی ہے۔بوریل نے کہا کہ روسی تیل کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کسی بھی طریقہ کار کو قومی حکام کو نافذ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انھوں نے اشارہ دیا کہ یورپی یونین خریداروں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر وہ بیچ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کوئی خرید رہا ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کون خرید رہا ہے۔انڈیا کی حکومت نے کیا کہا؟انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے مطابق،’ کروڈ جس کی شکل کسی تیسرے ملک میں یورپی یونین کی پابندیوں کے قوانین کے تحت تبدیل ہوتی ہے اسے روسی سامان نہیں کہا جا سکتا۔‘انھوں نے کہا ’یورپی یونین کونسل کے ضوابط کو دیکھیں، روسی خام تیل جو کافی حد تک کسی تیسرے ملک کی طرف موڑ دیا گیا ہے اسے وہاں سے پیدا ہونے والا نہیں سمجھا جاتا۔ میں آپ سے کونسل ریگولیشن 833/2014 کو دیکھنے کی درخواست کروں گا۔‘جے شنکر بنگلہ دیش، سویڈن اور بیلجیئم کے اپنے تین ملکوں کے دورے کے آخری مرحلے میں پیر کو برسلز پہنچے ہیں۔جے شنکر نے اس سے قبل روس سے انڈیا کی درآمدات کا بھی دفاع کیا تھا اور یوکرین میں فوجی کارروائی کے تناظر میں نئی دہلی پر روس کے ساتھ اپنی تجارت کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے بالواسطہ طور پر مغرب پر تنقید کی تھی۔انھوں نے کہا تھا کہ ’روس کے ساتھ ہماری تجارت یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت چھوٹے پیمانے پر 12 سے 13 ارب امریکی ڈالر ہے۔‘