تحریر ،ساجد علی
تجربہ کاروں اور ماہرین کے ساتھ تعلیم اور تربیت انسانوں کو خوش رکھتی ہے۔ تعلیم، علم اور عقل کو بڑھاتی ہے اور جب بات افراد کی ہو تو علم ایک جامع زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس دنیا میں بچہ جب آنکھ کھولتا ہے تو وہ مقدس اور معصوم ہوتا ہے، بچہ جھوٹ، فریب، بددیانتی، ظلم، لالچ، بے ایمانی اور منافقت سے کوسوں دور ہوتا ہے اور فریب اس کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ بچہ سچ بولتا ہے۔ تو وہ اتنا عظیم کیوں پیدا ہوا ہے کہ اس کے دکھوں کے بارے میں سوچنے سے درد اور تکلیف ہوتی ہے؟یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ ناخوشگوار عادات اور انداز والدین یا بزرگوں سے مل سکتے ہیں جو ان کے خون میں شامل ہیں۔ کچھ خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں لیکن تربیت کا بھی شخصیت سازی میں اتنا ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ تمام علم اور حکمت جو ہمیں تعلیم سے حاصل ہوتی ہے والدین کا اس میں اہم حصہ ہے۔ بچے کی شخصیت کی تشکیل میں خاص طور پر ماں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماں اپنے بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ والدین پہلے اساتذہ ہیں جو اشیا کو متعارف کرانے، جانچنے اور بتانے والے ہیں۔ والدین کو ہمیشہ اس بات سے آگاہ رہنا چاہیے کہ وہ (بچہ) کیا کرتا ہے۔بچے کی تعریف کرنا، نازبرداری کرنا، اس کیلئے پیسہ کمانا، اپنے آپ کو مار دینا، ماں باپ اولاد کیلئے کیا نہیں کرتے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کی منفی عادات بھی بچوں پر برا اثر ڈآلتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اور اساتذہ معاشرے کے ذمہ دار افراد ہوتے ہیں، جن کے ہاتھ میں معاشرے اور ملک کا مستقبل ہوتا ہے کیونکہ جو بچہ وہ پال رہے ہیں وہ خاندان اور ملک کا اہم رکن بننے والا ہے۔بچہ مٹی کا سانچہ ہے، آپ جو بھی شکل بنائیں گے وہ بن جائے گا۔ اگر والدین مذہب، اخلاق اور قانون سے بالاتر طرز زندگی اپنائے ہوئے ہوں تو بچے مستقبل میں ماں باپ کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اگر اولاد کے سامنے شوہر اور بیوی آپس میں بحث کریں گے، الزامات یا عیب نکالیں گے، اولاد کے خیالات اور اطوار بھی خراب ہونا شروع ہو جائیں گے۔والدین اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ بچوں میں اعتماد اور محبت کی خواہش ہوتی ہے، بچہ انہیں خوش دیکھنا چاہتا ہے، ان کے ذریعے آگے کی دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔ جب والدین کا رویہ اچھا نہ ہو تو بچے کی شخصیت بھی غیر متناسب ہو جاتی ہے۔ بچہ عدم اعتماد کی حالت میں کلاس روم میں شریک نہیں ہو سکتا، وہ جسمانی طور پر تو وہیں ہو گا مگر ذہنی طور پر پریشانی کے عالم میں ہی رہے گا۔ ایک بچہ ماموں یا خالہ، چچا یا پھپھو سے بھی غلط عادات سیکھ سکتا ہے۔دوسرے انسان کا احساس یا ہی تو گوشت اور ہڈیوں کے مجموعے کو انسان سے بناتا ہے ۔ بچے کو ہر دور میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، جو والدین، ماحول، کتابوں یا بڑے لوگوں کے تجربات اور ان کی تحریروں سے ملتی ہے، لیکن آج کل کے والدین بچوں کے ساتھ یہ ظلم کرتے ہیں کہ موبائل فون اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج ہونے لگتا ہے۔ ایلیٹ کلاس کے بچوں کو کمپیوٹر اور پلے سٹیشن کی عادت ڈال دی جاتی ہے، بعض گیمز اتنی خطرناک ہوتی ہیں جو بچوں کو غصیلا اور ضدی بنا دیتی ہیں۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کو بہترین تعلیم، دنیا کی سمجھ بوجھ، اچھے تعلقات کو سمجھنا شامل ہے۔ چونکہ بچے مستقبل کے معمار ہیں، اس لیے اسلام نے خاندان کے تصور کی آگاہی بھی ان کو دینا ضروری بتایا ہے۔ والدین کو بچوں کی جوانی تک شفقت کے ساتھ اپنی اولاد کی بنیادی اور جائز ضروریات کو پورا کرنا ضروری قرار دیا ہے۔بچے کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ دوستانہ طرز عمل والا خوشگوار شخصیت کا مالک بنے۔ اس کی اچھے کاموں میں بھرپور حوصلہ افزائی کریں اور معاون بنیں، زندگی کے ہر موڑ پر اس کی بات پورے دھیان سے سنیں اور پھر مناسب ہدایات دیں، دنیا داری بھی ایمانداری کی بنیاد پر سکھائیں، یاد رکھیں آپ کا بچہ آپ کا کردار ہے، اچھا ہو گا تو سب آپ کو اچھا کہیں گے ورنہ بری پہچان تو کوئی بھی نہیں چاہتا۔
بشکریہ دنیا