سی ایم ایم رپورٹ

اہم خبریں
  • غزہ پناہ گزین کیمپ میں گاڑی پر اسرائیلی فورسز کی بمباری، 5 صحافی شہید
  • بشارالاسد کی اہلیہ خطرناک بیماری میں مبتلا
  • موزمبیق میں پرتشدد مظاہرے، جیل توڑ کر 1500 قیدی فرار، 33 ہلاک
  • غزہ میں 24 گھنٹے میں 38 فلسطینی شہید
  • خلیج تعاون کونسل نے شام میں غیر ملکی مداخلت کو مسترد کر دیا
  • سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ 92 برس کی عمر میں چل بسے
  • جاپانی ایئر لائنز کا سائبر حملے کے بعد نظام بحال ہونے کا اعلان
  • روس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا
اہم خبریں
  • غزہ پناہ گزین کیمپ میں گاڑی پر اسرائیلی فورسز کی بمباری، 5 صحافی شہید
  • بشارالاسد کی اہلیہ خطرناک بیماری میں مبتلا
  • موزمبیق میں پرتشدد مظاہرے، جیل توڑ کر 1500 قیدی فرار، 33 ہلاک
  • غزہ میں 24 گھنٹے میں 38 فلسطینی شہید
  • خلیج تعاون کونسل نے شام میں غیر ملکی مداخلت کو مسترد کر دیا
  • سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ 92 برس کی عمر میں چل بسے
  • جاپانی ایئر لائنز کا سائبر حملے کے بعد نظام بحال ہونے کا اعلان
  • روس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا
Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

سپین کے شہر ایلی کانٹے کا سفرنامہ

تحریر :فرزانہ افضل
حصہ چہارم۔ بُل رنگ پلازہ ۔ جمعہ 26 جولائی 2024
یو کے میں رہنے والے اکثر دوستوں کو معلوم ہوگا کہ یورپ کی ہالی ڈے کیلۓ موبائل فون کمپنیاں رومنگ مہیا کرتی ہیں۔ یورپ کے کچھ ملکوں میں رومنگ فری ہے مگر کچھ ملکوں کے لیے آپ کو رومینگ کا پیکج خریدنا پڑتا ہے۔ ہم نے بھی سپین آنے سے پہلے ہی پیکج خرید لیا تھا۔ اور جونہی سپین کی سر زمین پر ہمارا جہاز لینڈ ہوا اور ہم نے فون آن کیا تو سپین کے لیے موبائل ڈیٹا بھی آن ہو گیا تھا۔ فون کے ساتھ آپ کو بہت سہارا رہتا ہے، گوگل لوکیشن اور تمام مقامات کی سرچ میں بہت آسانی ہو جاتی ہے۔ آج جمعہ کا روز ہم نے ناشتے کے بعد بُل رنگ پلازہ کی بکنگ کی تھی۔ گیٹ یوؤر گائیڈ کے نام سے ایک ایپ اور ویب سائٹ ہے جس کے ذریعے آپ مشہور مقامات کی بکنگ کر سکتے ہیں۔ ویسے بعض جگہوں کی اپنی خود کی ویب سائٹ بھی ہوتی ہے جس پر آپ براہ راست ٹکٹ بک کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ جگہ زیادہ مصروف نہ ہو تو گیٹ پر بھی ٹکٹ مل جاتی ہے۔ لیکن ہم نے ایک دن پہلے بل رنگ پلازہ کی ٹکٹ خرید لی تھی۔ یہ جگہ ہوٹل کے قریب ہوئی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا سٹیڈیم ہے جس کو ٹورو پلازہ بھی کہا جاتا ہے یہاں پر سال میں دو سے تین بار بل فائٹنگ ہوتی ہے جو سپین کی ایک قدیم سپورٹس ہے۔ بقیہ سال کے دوران اس جگہ کو استعمال میں رکھنے کے لیے میوزک کنسرٹ ہوتے ہیں۔ تاریخ کے مطابق سپین میں بل فائٹنگ 711 عیسوی میں شروع ہوئی جب آٹھویں بادشاہ الفانسو کی تاج پوشی کا جشن منانے کے لیے پہلی باضابطہ بل فائٹ منعقد کی گئی تھی۔ سپین کی بل فائٹنگ کی روایت کسی حد تک گلیڈی ایٹر گیمز کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ کبھی رومن سلطنت کا حصہ تھا۔ بل فائٹنگ کی جڑیں قبل از تاریخ بحیرہ روم کے علاقے اور میسو پوٹیمیا میں بیل کی پوجا اور قربانی سے ہو سکتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے سپین میں بیل فائٹنگ کو ایک اعلٰی درجے کا عمدہ کھیل سمجھا جاتا تھا جو صرف دولت مندوں کے لیے مخصوص تھا کیونکہ وہ جانور پالنے اور ان کو تربیت دینے کی استطاعت رکھتے تھے۔ خیر یہ تو تھی بل فائٹنگ کی مختصر سی تاریخ، آگے چل کر میں اپ کو اس کے بارے میں مزید آگاہی دوں گی۔ چونکہ ٹوروز پلازہ ہوٹل سے زیادہ دور نہ تھا بلکہ ہوٹل والوں نے تو بتایا کہ آپ پیدل بھی جا سکتے ہیں۔ مگر ہم ہوٹل کے بالکل سامنے موجود بس سٹاپ سے بس میں بیٹھے۔ سپین میں لوگ صرف سپینش بولتے ہیں اور انگلش نہیں سمجھتے مگر اس کے باوجود پوری کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی مدد کی جائے۔ ہم نے بس ڈرائیور کو بتایا کہ ٹوروز پلازہ جانا ہے۔ گو کہ میری بیٹی نے فون پر ڈائریکشنز لگائی ہوئی تھیں مگر اس کے باوجود میں نے برابر بیٹھی خواتین مسافروں سے تسلی کے طور پر پوچھ ہی لیا۔ تو وہ ہر سٹاپ کے بعد بتانے لگیں کہ اب تین سٹاپ رہ گئے ہیں، اگلے پر بتایا ، دو رہ گئے ہیں اور پھر فوراً اشارہ کیا کہ اگلے سٹاپ پر آپ نے اترنا ہے۔ میں ان کے اس اخلاق اور مدد کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ حالانکہ میری بیٹی کچھ جھلا رہی تھی کہ اس کو ایپ کے ذریعے معلوم تھا کہ ہمیں کہاں اترنا ہے اور میرا ان خواتین سے پوچھنا اس کی نظر میں بالکل غیر ضروری تھا۔ مگر جیسا میں نے پہلے بتایا مجھے لوگوں سے بات چیت کرنا اچھا لگتا ہے اس سے آپ کو بہت تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ میں نے دونوں خواتین کا شکریہ ادا کیا اور سٹاپ پر اتر گئے سامنے ہی سٹیڈیم کی بڑی سی عمارت تھی ، ٹکٹ کاؤنٹر پر اپنے ٹکٹ دکھائے انہوں نے ہمیں آڈیو گائیڈز دیں جس میں انگلش میں بھی ہسٹری ریکارڈ تھی۔ ہم نے اپنے ٹور کا آغاز کیا ۔ پہلے نمبر پر پورٹ گرینڈ یعنی بڑا گیٹ تھا اس گیٹ کے ذریعے سٹیڈیم میں اپنے فینز کے کندھوں پر سوار ہو کر داخل ہونا اور پرفارم کرنا ہر بل فائٹر کا خواب ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر دی سٹینڈ تھا، جو کہ کچھ سیڑھیاں چڑھ کر آپ پورے سٹیڈیم کا متاثر کن ڈیزائن دیکھ سکتے ہیں۔ ہم وہاں سے اوپر گئے اور کھڑے ہو کر کیمرہ دائیں سے بائیں گھما کر پورے سٹیڈیم کی ویڈیو بنائی اور تصویریں بھی لیں۔ اس وقت وہاں پر کسی کانسرٹ کی تیاری ہو رہی تھی ۔ سامنے سٹیج بنا ہوا تھا سٹیج کے نیچے بہت بڑا میوزک سسٹم نصب تھا اور میوزک خوب زور شور سے چل رہا تھا جس سے ماحول میں گرم جوشی پیدا ہو رہی تھی ایسا ٹورسٹ کی تفریح کے لیے بھی انتظام کیا گیا تھا وگرنہ تو پورے سٹیڈیم میں سنسان خاموشی ہوتی۔ ہم ٹھہرے میوزک کے شوقین، لہٰذا ہمیں یہ بہت اچھا لگا۔ اس کے بعد ہم وہاں سے نیچے اتر آئے اور پھر ایک گول دائرے میں جیسے جیسے نمبر وار جگہیں بنی ہوئی تھیں ہم ان کی پیروی کرتے گئے۔ تیسرے نمبر پر ایک کمرے میں گرجا گھر بنا ہوا تھا۔ جس میں بل فائٹرز جا کر پہلے پوجا کرتے ہیں اور اپنی کامیابی اور صحیح سلامت واپس لوٹنے کی دعا کرتے ہیں۔ بل فائٹنگ زندگی اور موت کا کھیل ہے۔ گزشتہ 300 سال میں اب تک 534 بل فائٹرز کھیل کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس کھیل میں بل فائٹر اور بیل ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں بل فائٹر کا مقصد بیل کو جان سے مارنا ہوتا ہے اور زخمی غصیلا بیل اپنے بچاؤ کے لیے بل فائٹر پر حملہ کرتا ہے۔ بل فائٹر ایک مخصوص لباس پہنتے ہیں ایک چوغہ نما چھوٹی جیکٹ کے ساتھ ایک مخصوص فیبرک سے بنی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ چپکی ہوئی تنگ پینٹ پہنتے ہیں تاکہ بیل اپنے سینگوں سے ان کی ٹانگوں کو زخمی نہ کر سکے۔ چوتھے نمبر پر ایک کمرہ تھا جس پر انفرمری کا بورڈ لگا تھا یہ کلینک زخمی بل فائٹرز کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے بنا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر کوئی بل فائٹر نہیں آنا چاہتا مگر پھر بھی سب کو وہاں پر داخل ہونا پڑتا ہے کیونکہ یہ خطروں کا کھیل ہے۔ بل فائٹر کے زخموں سے بیل کی طاقت اور بہادری کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ پانچویں نمبر پر ایک گیٹ ہے جہاں سے اس کھیل کی ٹیم بیلوں کی انٹری سے پہلے داخل ہوتی ہے۔ جن میں بل فائٹرز کے ساتھ ساتھ پکاڈورز اور بینڈریلئروس ( جن کا کام گھوڑے پر سوار ہو کر بیل کو ایک تیز نوکیلا نیزہ چبھونا ہوتا ہے تاکہ وہ غصے میں آ کر بپھر جائے اور بل فائٹنگ شروع ہو) ، ایک پریڈ کی شکل میں داخل ہوتے ہیں ۔ چھٹے نمبر پر بلز گیٹ ہے جہاں سے بیلوں کو سٹیڈیم میں داخل کیا جاتا ہے۔ بیلوں کی طاقت اور لڑنے کی قوت ہی ایک ایسی چیز ہے جو ان کی زندگی کو اس بھیانک کھیل میں بچا سکتی ہے۔ ساتویں نمبر پر کوریلز ہیں۔ یہ ایک درمیانے سائز کا کمرہ ہے جس میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے ہیں ان کیبنز میں بیلوں کو فارم سے لا کر بل فائٹ سے پہلے رکھا جاتا ہے ۔ فارم سے آئے بیلوں کا وزن کیا جاتا ہے بل فائٹ میں اہلیت کے لیے بیل کا وزن کم از کم 435 کلوگرام ہونا ضروری ہے ۔ جو اس معیار پر پورا اترتے ہیں ان کو رکھ لیا جاتا ہے باقی بیلوں کو فارم میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ بل فائٹنگ سے ایک رات قبل 12 بجے کے بعد بیلوں کو بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا ہے جب کہ لڑائی دن کے 12 بجے شروع ہوتی ہے۔ جانوروں کے لیے یہ وقت بہت تکلیف دے ہوتا ہے کیونکہ وہ گھنٹوں بھوکے پیاسے رہتے ہیں جس کے باعث اور اس اندھیرے کمرے میں رہنے سے ان کا دماغ کنفیوز ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے چلیں تو آٹھویں نمبر پر سے آپ کو پلازہ اور ایرینا کا ایک اور ویو نظر آتا ہے ۔ نوویں نمبر پر سٹیڈیم میں پریزیڈنٹ باکس بنا ہوا ہے جہاں سے صدر صاحب اس کھیل کے تمام سٹیجز کا اعلان کرتے ہیں ۔ اور انعامات کے ساتھ ساتھ پینلٹیز یعنی سزاؤں کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک میوزیم بنا ہوا ہے جس میں بیلوں اور بل فائٹنگ سے متعلق آرٹ اور تصویروں کی شکل میں ایک تاریخ درج کی گئی ہے۔ میوزیم کے آخری کمرے میں گیم کے تمام مراحل کی ویڈیو دکھائی جاتی ہے۔ ایک جگہ پر وی پی این لگا کر پوری گیم دکھائی جاتی ہے۔ اسپین میں نئی نسل اور ترقی پسند افراد اس خونی کھیل پر قانونی طور پر پابندی لگانے کے لیے مہم چلا رہے ہیں سپین کے کچھ شہروں میں اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مگر سپین کی عدالت کے مطابق یہ اسپانیا کا تاریخی اور ثقافتی کھیل ہے جسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔ بل فائٹرز کو ایک لڑائی کا معاوضہ عام طور پر ایک ہزار سے 10 ہزار ڈالر دیا جاتا ہے۔ جبکہ بڑے اور مشہور بل فائٹرز کو راک سٹارز کی طرح ایک لاکھ ڈالر فی لڑائی ادا کیا جاتا ہے۔ بل فائٹنگ گیم کا دورانیہ ڈیڑھ سے ڈھائی گھنٹے تک ہوتا ہے۔ بل فائٹنگ پلازہ کا ٹور میں نے سب سے زیادہ انجوائے کیا کہ وہاں پر جا کر اس کھیل کے بارے میں ایک مختلف قسم کی تاریخ جاننے کو ملی ۔ ہم نے واپسی کی بس پکڑی اور ہوٹل پہنچ کر کچھ ریسٹ کیا۔ پھر لنچ کے لیے باہر آئے۔ لبنانی ریسٹورنٹ سے ہی کچھ کھانا کھایا۔ بعد میں آئس کریم لی۔ اور پھر واپس ہوٹل گئے۔ تھوڑا آرام کرنے کے بعد شام کو ایلی کانٹے کی شاپنگ پر گئے ہمارے ہوٹل کے عقب میں آکسفورڈ سٹریٹ لندن کی طرز کی گلیوں میں ڈیزائنر شاپس تھیں وہاں گھومے پھرے۔ کچھ چھوٹی موٹی چیزیں جیولری اور میک اپ خریدا اور رات کا کھانا کھا کر مرینہ پر گئے۔ سیاحوں کے رش سے ذرا دور سمندر کنارے بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا کا لطف اٹھاتے رہے رات کے وقت سمندر کی خاموشی اور لوگوں کی چہل پہل میں کمی ایک ٹھہراؤ اور سکون کا احساس دلا رہی تھی۔
( جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Array
100% LikesVS
0% Dislikes