تحریر:شفقت اللہ مشتاق
جن کو بوتل میں بند کرنا ہمیشہ سے ہی لوگوں کی خواہش رہی ہے بلکہ خواب رہا ہے جبکہ جن بھی پرلے درجے کا چالاک ثابت ہوا ہے جب چاہتا ہے غائب ہوجاتا ہے اور بوتل دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ جن مسلسل اپنا کام دکھاتا رہتا ہے اور عامل ہر روز ایک نئے انداز سے اپنا ہاتھ دکھا جاتا ہے اور بے چاری مخلوق خدا کے ساتھ ہاتھ ہوجاتا ہے۔ اور ہم جیسے معصوم نجومیوں کو اپنا ہاتھ دکھا دکھا کر ہاتھ کی لکیروں کا ستیاناس کردیتے ہیں اور حاصل ناامیدی مایوسی اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا جبکہ کہانی سوا اور ماسوا کے گرد گھومتی ہے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے والے غور کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں باقی دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں اور بالآخر زندگی کی دوڑ میں بہت ہی پیچھے رہ جاتے ہیں ان کو آگے بڑھنے کے لئے مسلسل عمل کی ضرورت ہے خود عامل بننے اور اور عامل پر انحصار کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اسی فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ حق اور باطل گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ پورا معاشرہ ہیجان کی دنیا میں غوطے کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مجبور لوگوں کی کوئی زندگی نہیں ہوتی بلکہ جینا مرنا ایک برابر۔ بات ہمیشہ برابری کی بنیاد پر ہونی چاہئے اور جب بنیاد ہی کمزور ہو تو عمارت تا ثریا می رود دیوار کج کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے۔ مرد اور عورت کے معاملات برابری کی بنیاد پر طے ہونا چاہئیں یہ وہ بیانیہ ہے جس کے پودے کو آج تک پوری طرح پانی دینے میں پوری دنیا ناکام رہی ہے۔ شادی کے پہلے دن ہی ایک دوسرے پر غالب آنے کی جدوجہد مسلسل شروع ہو جاتی ہے اور اس کار جہاں دراز میں ٹھیک ٹھاک پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گھورا بھی جا سکتا ہے۔ ڈانگ سوٹے تک نوبت بھی آسکتی ہے۔ نصرت کے لئے اپنے اپنے بہنوں بھائیوں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں بیٹی کو مر کر ہی آنے کا درس دیا جاتا ہے اور ایسی صورت حال میں بہن بھائی پیچھے سے جب بہن کی آواز پر لبیک نہیں کہتے تو ان حالات میں بسا اوقات جن غیرت کھا جاتے ہیں اور وہ چپکے سے صنف نازک کے جثے کا حصہ بن کر مرد کو للکارتے ہیں اور پھر مرد کے اعصاب کا ایک مکمل امتحان ہوتا ہے۔ اس میں وہ پریشان بھی ہو سکتا ہے۔ ڈر کر ہتھیار بھی ڈال سکتا ہے۔ عاملوں کی مدد حاصل کرکے بیوی کا ڈنڈوں سے علاج بھی کروا سکتا ہے اور بعض اوقات تو اپنی شریک حیات کو عاملوں کے ہاتھوں ہار بھی سکتا ہے۔ مخصوص حالات میں کھیل کو ہار کر جیتنا بھی مصلحت ہوتی ہے ویسے خانگی زندگی میں ایسی جیت پر تف۔ اف اللہ یہ ازدواجی زندگی ہے یا کوئی جنگ۔ پیار محبت شادی کا حاصل ہوتا ہے اور یہاں بالکل ہی معاملہ مختلف ہے۔ معاملات دانائی اور حکمت سے طے کئے جاتے ہیں شکر رنجی، مخاصمت، ہیجان، بداعتمادی، نفرت،بدظنی وغیرہ وغیرہ ہرے بھرے کھیت کو آگ لگا کر خاکستر کر دیتے ہیں۔ایک وقت تھا آبادی کم تھی۔ بڑے بڑے درختوں کے جھنڈ ہوتے تھے۔ زمینیں غیر آباد تھیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں مواصلات کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں تھا۔ شعبہ طب سنیاسیوں اور نیم حکیموں کے حوالے تھا۔ سیدھی سادھی عورتوں پر باہر جانے کے دروازے بند تھے اور شوخ اور چنچل عورتوں پر گھر کے دروازے بند کر دیئے جاتے تھے۔ ان حالات میں جنوں کی موجیں ہو جاتی تھیں جہاں چاہا وہاں رہا۔ کبھی درختوں کے جھنڈ پر بسیرا کبھی صحرا نوردی اور کبھی عورتوں میں گھس کر اچھے خاصے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیا جاتا تھا۔بڑے بڑے ڈرامے اور محیرالعقول تماشے۔ بسا اوقات آسیب اور بیماری میں فرق کرنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ مولانا روم اپنی ایک حکایت میں فرماتے ہیں کہ بادشاہ کی بیٹی بیمار ہوگئی اس کا اس وقت کے معروف حکیموں سے علاج کروایا گیا لیکن بے سود۔ بالآخر کسی سیانے کے مشورے پر ایک اللہ والے کو لایا گیا۔ اس نے آتے ہی مریضہ کے اندر کے روگ کا اندازہ لگا لیا اور اس کے سامنے کئی شہروں کے نام بولے جب بخارا کا نام آیا تو بے سدھ بچی میں جنبش پیدا ہوئی پھر بخارا کے مختلف بازاروں کے پھر پیشوں کے نام بولے گئے اور پھر مختلف افراد کے نام بول کر ایک مکمل ایڈریس حاصل کر لیا گیا اور مذکورہ افراد کو بلوا کر اس لڑکی کو روزانہ کچھ دیر دکھا کر جلاب دے دیا جاتا تھا۔ مریض دیدار یار سے تندرست ہونے لگا اور لڑکا جلاب کی وجہ سے روز بروز کمزور ہونا شروع ہوگیا اور بالآخر لڑکی خوبرو اور لڑکا دھرنگا۔ دونوں ایک دوسرے کی توجہ کا مرکز نہ رہے۔ مان ٹوٹ گئے۔ تو تو نہ رہا میں میں نہ رہا۔ مولانا روم جو کہنا چاہتے تھے وہ کہہ گئے “دائم ذات خدا کی”۔ اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کن کن باتوں پر حوا کی بیٹی بیچاری کن کن علاجوں کے مراحل سے گزری ہے۔ ڈنڈے سے اس کا بلکہ مکوں ہوروں اور لاتوں سے اس کا علاج کیا گیا۔ اپنی نام نہاد عزت کے لئے بے شمار خوبرو ہیروں کو زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کچھ نے ان حالات سے تنگ آکر خود ہی پھندے کو چوم لیا۔ مذکورہ سطور میں جنوں کے قصوں کا اجمالی خاکہ پیش کردیا گیا ہے۔ خیر آبادی بڑھنے سے جن اول تو بھاگ گئے ہیں اور جو ابھی بھی کونے کھدرے میں براجمان ہیں وہ بڑا ہی سمارٹ پلے کرتے ہیں وہ عاملوں کے ساتھ مل کر خوب سیاست کرتے ہیں اور ریاضت کے بغیر ہی پیسہ بھی کماتے ہیں اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتے ہیں یہ ہے حکمت اور دانائی۔ حکیموں کی ہٹی مستقل بند اور نیم حکیموں کے خلاف آپریشن شروع۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔آگے جانے کے لئے پیچھے مڑ کر اس لئے دیکھنا ضروری ہے تاکہ غلطی کو دہرایا نہ جائے۔ ویسے بھی مومن ایک دفعہ ہی ڈسا جاتا ہے۔ سانپ پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے اور آستینوں کے سانپوں سے تو مکمل طور پر نپٹنے کا وقت آگیا ہے۔ ہاتھ کھڑے کرنے میں ہی عافیت ہے۔ موکلات مشکلات میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کے لئے مجاہدے اور مراقبے کی ضرورت ہے۔ حسب ضرورت عاملوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں عامل اور عمال کا اتحاد کروا کر جن بھوتوں اور دیگر ہوائی چیزوں سے بآسانی جان چھڑوائی جاسکتی ہے۔ بہرحال اس کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ہوا میں باتیں کرنے کا سردست کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مہنگائی، غربت، بےروزگاری،ذہنی فتور، ڈالر کی رفتار،افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے جنوں کو ایک ہی بوتل میں بند کر کے کسی ایسے دریا کے حوالے کرنا ہوگا جو ان کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردے۔ ہماری جان تو چھوٹے ناں۔ اب ہم سب اعصابی طور پر کمزور ہو چکے ہیں اور مایوسی کی دلدل میں روز بروز دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ خضرراہ کوئی دکھائے ہمیں، نغمہ جانفزا بھی سنائے ہمیں، زندگی کا بھی راز بتائے ہمیں، کوئی تو غیرت دلائے ہمیں اور خواب غفلت سے کوئی جگائے ہمیں۔