تحریر :فرزانہ افضل
ماہ رمضان کی برکتوں اور فضیلتوں سے ہم سب کافی حد تک آگاہی رکھتے ہیں اور روزے کے قواعد و ضوابط بھی خوب جانتے ہیں۔ اور اگر کہیں کوئی کمی رہ گئی ہو تو علماء کرام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کافی معلومات مل جاتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح جونہی رمضان کا چاند طلوع ہوا ہے۔ فیس بک پر بھی نور سا چھا گیا ہے۔ صارفین اسلامک پوسٹوں کے ساتھ ساتھ دوسری قسم کی پوسٹیں بھی نہایت تمیز کے دائرے میں رہ کر لگا رہے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ محتاط طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ مزاحیہ پوسٹیں بھی سلجھے انداز میں پیش کی جا رہی ہیں۔ نفرت آمیز طنز آمیز نچلے درجے کی زبان برتنے پر لوگ خود پر کافی کنٹرول کر رہے ہیں۔ کاش یہ سلسلہ رمضان کے بعد بھی جاری رہے، یہ شرافت آمیز رویہ قائم رہے ۔رمضان میں صدقہ خیرات کی ترویج دی جاتی ہے تاکہ مستحقین کی مدد ہو سکے اور ان کو رمضان کے دوران مالی مشکلات کا کم سے کم سامنا کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ غیبت ، کینہ ، بغض اور لالچ سے پرہیز بھی ضروری ہے ، کیونکہ روزہ کی حالت میں تمام فرضی اور نفلی عبادات کے ساتھ ساتھ دل اور روح کی پاکیزگی رکھنا بھی ضروری ہے، یہ بھی اہم ہے کہ ذہن میں کوئی ایسے ویسے شرارتی خیالات نہ آئیں یعنی آپ کا کردار بالکل پرفیکٹ ہونا چاہیے ۔ مگر کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ روزہ کے دوران ، سحر اور افطار کے درمیانی وقفے میں ہم اپنی سوچوں اور محسوسات پر پہرہ لگا دیتے ہیں ۔ اور اگر سچ مچ میں کوئی ایسی سوچ نہیں آتی جس سے روزہ مکروہ ہونے کا خدشہ ہو ، یا گناہ کا احساس ہو مثلاً کسی کے بارے میں سازشی پلان ، برا کہنا ، کسی بھی قسم کے شر آمیز خیالات سے آپ پاک رہتے ہیں تو کیا اس کی وجہ روزے کے باعث نقاہت ہے۔ کہتے ہیں رمضان میں شیطان قید ہوتا ہے ذرا دھیان کیجئے کہیں وہ آپ کے دل میں تو قید ہو کر نہیں بیٹھ گیا۔ مقصد یہ ہے کہ کردار کی پاکیزگی ، نیکیوں کی ترویج ، مستحقین کی مدد کا سلسلہ کیا پورا سال نہیں رہنا چاہیے ؟ سال بھر کا ثواب ایک ہی مہینے میں کما کر بقیہ گیارہ مہینے فراغت سے بیٹھ جاتے ہیں۔ بچپن سے اسلامیات کی کتاب میں پڑھتے چلے آئے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔ دونوں ہی زندگی کے ہر حصے میں سال کے ہر مہینے میں نبھانا ضروری ہیں۔ رمضان کے مہینے میں نیکی کا ڈبل ثواب ہے تو کیا بقیہ مہینوں میں سنگل ثواب ملتا ہے۔ یہ زندگی، یہ کائنات، دن ، رات ، سورج، چاند ستارے، نظام شمسی سب اللہ کی تخلیق ہیں ۔ رمضان میں روزے فرض کیے گئے ہیں جن کی اصل روح یہ ہے کہ باقی پورا سال ان نیکیوں اور اچھے کاموں کو جاری رکھا جائے۔ ہم لوگ آپس میں تو حساب کتاب کرتے ہی ہیں خدا سے بھی بھاؤ تاؤ کرتے ہیں ۔ چیرٹی اس لالچ میں دیتے ہیں کہ ایک گنا کا دس گنا ملے گا۔ کس نیکی کا کتنا ثواب ہے۔ کس مخصوص پڑھائی یا وظیفے سے مختلف قسم کے گناہ بخشوائے جا سکتے ہیں۔ لین دین ہو رہا ہے۔ ہر چیز پلڑے میں تولی جا رہی ہے۔ انسان ہونے کے ناطے سے انسانیت کی بھلائی ہم سب پر فرض ہے۔ لازم ہے کہ ہم معاشرے میں ایک دوسرے کی فلاح و بہبود کا خیال رکھیں۔ ایک اچھے انسان بن جائیں تو اچھے مسلمان خود بخود بن جائیں گے۔